ایک چھوٹے سے گاؤں میں دو بہن بھائی رہتے تھے۔ بڑے کا نام حامد تھا اور چھوٹی کا نام آمنہ۔ دونوں دیکھنے میں تو بہت پیارے تھے لیکن طبیعت کے ذرا شرارتی۔ ان کی شرارتیں گاؤں میں مشہور تھیں، کبھی کسی کے باغ سے پھل توڑ لاتے تو کبھی کسی کے دروازے پر کنکر مار دیتے۔ لیکن ان سب شرارتوں کے باوجود، ان کے دل بہت صاف اور نیک تھے۔ وہ کسی کو جان بوجھ کر تکلیف نہیں پہنچاتے تھے۔

ایک دن، گرمیوں کی چھٹیوں میں، حامد اور آمنہ گاؤں کے پاس والے جنگل میں کھیلنے گئے۔ وہ کھیلتے کھیلتے جنگل کے ایک ایسے حصے میں پہنچ گئے جہاں وہ پہلے کبھی نہیں گئے تھے۔ گھنے درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان، انہیں ایک چھوٹی سی غار دکھائی دی۔ غار کے اندر سے ایک عجیب قسم کی روشنی نکل رہی تھی۔ یہ روشنی نہ تو سورج کی طرح تیز تھی اور نہ ہی کسی عام چراغ کی طرح مدھم، بلکہ ایک پراسرار سی چمک تھی۔

حامد اور آمنہ، جو کہ تھے ہی بہت تجسس والے، اس روشنی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ان کا دل چاہا کہ وہ جانیں کہ اس غار کے اندر کیا ہے۔ ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے، وہ دھیرے دھیرے غار کے دہانے تک پہنچے۔ اندر قدم رکھتے ہی ان کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ غار کے ایک کونے میں ایک پرانا صندوق رکھا ہوا تھا اور اس میں سے سنہری روشنی پھوٹ رہی تھی۔

ڈرتے ڈرتے انہوں نے صندوق کے قریب جا کر اسے کھولا۔ صندوق کے اندر قیمتی جواہرات، سونے کے سکے اور دیگر چمکدار چیزیں بھری ہوئی تھیں۔ یہ ایک سچا خزانہ تھا! صندوق کے ڈھکن پر ایک پرانی تحریر لکھی ہوئی تھی: “جو کوئی بھی اس خزانے کو چھوئے گا، اس کی ہر خواہش پوری ہوگی!”

حامد کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے فوراً اپنا ہاتھ خزانے کی طرف بڑھایا۔ لیکن جیسے ہی اس کا ہاتھ صندوق کو چھونے لگا، ایک دم سے غار میں ایک سیاہ دھواں اٹھا۔ دھواں ایک خوفناک شکل میں بدل گیا – یہ ایک شیطان تھا!

شیطان کی آواز غار میں گونجی: “تمہاری ہر خواہش پوری ہوگی، لیکن صرف ایک شرط پر…” حامد اور آمنہ ڈر کے مارے کانپنے لگے۔ شیطان نے اپنی بات جاری رکھی، “…تم کبھی نماز نہیں پڑھو گے!”

حامد اور آمنہ ایک مشکل میں پھنس گئے۔ ایک طرف تو ان کے سامنے ایک ایسا خزانہ تھا جو ان کی ہر خواہش پوری کر سکتا تھا، لیکن دوسری طرف شیطان ان سے ان کا سب سے قیمتی عمل، نماز، چھوڑنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔ وہ دونوں خاموشی سے گھر واپس لوٹ آئے، لیکن شیطان کی کہی ہوئی بات ان کے دلوں میں وسوسے پیدا کرنے لگی۔

کچھ دن گزر گئے۔ حامد اور آمنہ نے نماز پڑھنا چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میں عجیب و غریب تبدیلیاں آنے لگیں۔ جس گھر میں پہلے پیار اور محبت تھی، وہاں اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائیاں ہونے لگیں۔ ان کے جو دوست ان کے ساتھ کھیلتے تھے، وہ بھی اب ان سے دور رہنے لگے تھے۔ حامد اور آمنہ دونوں کے دل میں ایک انجانا خوف اور اداسی بڑھتی جا رہی تھی۔ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے انہوں نے کچھ بہت قیمتی کھو دیا ہے۔

ایک دن، گاؤں کے بزرگ اور سمجھدار شخص، حاجی عمر، نے حامد اور آمنہ کو اداس دیکھا۔ انہوں نے پیار سے ان سے ان کی پریشانی کی وجہ پوچھی۔ حامد اور آمنہ نے انہیں غار میں ملنے والے خزانے اور شیطان کی شرط کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔

حاجی عمر نے ان کی بات غور سے سنی اور پھر نرمی سے کہا: “بیٹا، شیطان ہمیشہ انسان کو اللہ سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر انسان اللہ سے دور ہو جائے تو وہ آسانی سے گمراہ ہو سکتا ہے۔ یہ جو خزانہ تمہیں ملا ہے، یہ ایک آزمائش ہے۔ اصل خزانہ تو تمہارا ایمان ہے، تمہارا اللہ پر یقین ہے۔ نماز وہ رشتہ ہے جو تمہیں اپنے رب سے جوڑتا ہے۔ اسے کبھی مت چھوڑنا۔”

حاجی عمر کی باتوں کا حامد اور آمنہ پر گہرا اثر ہوا۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اسی رات، آمنہ نے ایک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک نورانی چہرے والا فرشتہ اس کے پاس آیا اور کہا: “اللہ تمہیں آزماتا ہے۔ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے۔ سچی کامیابی صرف اللہ کی اطاعت میں ہے، اس کے حکموں پر چلنے میں ہے۔ نماز جنت کی کنجی ہے۔ اسے کبھی مت چھوڑنا۔”

حامد نے بھی اسی طرح کا ایک خواب دیکھا۔ فرشتے کی نصیحت ان کے دل میں اتر گئی۔ اگلی صبح، حامد اور آمنہ نے ایک ساتھ توبہ کی۔ انہوں نے اللہ سے معافی مانگی اور عہد کیا کہ وہ کبھی نماز نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے اسی دن سے باقاعدگی سے نماز پڑھنا شروع کر دی۔

نماز پڑھنا شروع کرنے کے بعد، ان کی زندگی میں آہستہ آہستہ برکت آنے لگی۔ گھر میں سکون واپس آ گیا، ان کے دوست پھر سے ان کے ساتھ کھیلنے لگے اور ان کے دلوں سے خوف اور اداسی دور ہو گئی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ سچی خوشی اور اطمینان اللہ کی عبادت میں ہی ہے۔

آخر میں، حامد اور آمنہ یہ سمجھ گئے کہ حقیقی خزانہ اللہ کی رضا ہے۔ دنیاوی دولت تو ایک آزمائش ہے، لیکن ایمان اور اللہ کی اطاعت وہ لازوال دولت ہے جو انسان کو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب کرتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ نماز کی پابندی کی اور ایک نیک اور خوشگوار زندگی گزاری۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *