رائے بازار کے آخر میں ایک پرانا، ویران سا مکان تھا جس کے بارے میں بچے عجیب عجیب کہانیاں سناتے تھے۔ کچھ کہتے کہ وہاں ایک بھوت رہتا ہے، تو کچھ کاہتے کہ وہاں جادو کی کتابیں چھپی ہیں۔ لیکن بارہ سالہ زین نے کبھی ان باتوں پر یقین نہیں کیا تھا۔ وہ تو بس ایک عام سا لڑکا تھا جو کھیلنے کودنے اور نئی جگہوں کو دریافت کرنے کا شوقین تھا۔

ایک دن، جب زین اپنے دوستوں کے ساتھ فٹبال کھیل رہا تھا، گیند اچانک اُڑ کر اُس عجیب گھر کے باغ میں چلی گئی۔ سب بچے ڈر گئے۔

یار، وہاں مت جانا! وہاں تو بھوت رہتا ہے!” زین کے دوست عمر نے کہا۔

لیکن زین ہنس پڑا۔ “بھوت؟ تم اب بھی ان باتوں پر یقین رکھتے ہو؟ میں تو ابھی گیند لے کر آتا ہوں۔”

یہ کہہ کر وہ گھر کی طرف بڑھا۔ جیسے ہی اس نے گیند اٹھائی، اس کی نظر گھر کے پرانے دروازے پر پڑی۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا، جیسے کوئی اندر گیا ہو۔ دل میں تجسس بڑھا تو زین نے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا۔ دروازہ کِرکراتے ہوئے کھل گیا۔

اندر کا منظر بالکل عام تھا—پرانی کرسیاں، گرد سے اٹی کتابیں، اور بند شٹرز۔ لیکن ایک چیز نے زین کا دھیان کھینچافرش پر ایک بڑی سی پرانی چٹائی پڑی تھی، اور اس کے نیچے سے ہلکی سی روشنی آ رہی تھی۔زین نے چٹائی ہٹائی تو دیکھا کہ وہاں ایک چھوٹا سا تختہ لگا ہوا ہے۔ جب اس نے تختے کو اٹھایا تو نیچے سیڑھیاں نظر آئیں جو کسی تہ خانے میں جاتی تھیں۔ دل دھڑک رہا تھا، لیکن تجسس نے اسے اندر جانے پر مجبور کر دیا۔نیچے اترتے ہی اس کی آنکھیں چکاچوند ہو گئیں۔ وہاں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کی دیواروں پر پراسرار علامات بنی ہوئی تھیں۔ کمرے کے بیچوں بیچ ایک میز پر تین چھوٹی چھوٹی چابیاں پڑی تھیں۔ ہر چابی ایک دوسرے سے مختلف تھی—پہلی سونے کی، دوسری چاندی کی، اور تیسری کانسی کی۔

زین نے سونے کی چابی اٹھائی تو اچانک دیوار پر لکھے ہوئے الفاظ چمک اٹھے:”جو راز جاننا چاہتا ہے، وہ تینوں چابیاں لے کر آئے۔”زین نے تینوں چابیاں اٹھا لیں۔ جیسے ہی اس نے سونے کی چابی کو ہاتھ میں پکڑا، اس کے سامنے ایک روشن راستہ کھلا جو اسے ایک نئی جگہ لے گیا۔ وہ ایک باغ میں کھڑا تھا جہاں پرندے بول رہے تھے اور درختوں سے شہد ٹپک رہا تھا۔

ایک بوڑھا آدمی، جس کی داڑھی زمین تک لمبی تھی، اس کے سامنے آیا۔

“خوش آمدید، زین! تمہیں پہلی آزمائش پاس کرنی ہوگی۔” بوڑھے نے کہا۔

“آزمائش؟ کون سی آزمائش؟” زین نے حیران ہو کر پوچھا۔

بوڑھے نے ہاتھ میں ایک جادوئی گھڑی تھمائی۔ “اس گھڑی کو ٹھیک کرنا ہوگا، ورنہ وقت رک جائے گا۔”

گھڑی کے اندر چھوٹے چھوٹے پیچ تھے جو بکھرے ہوئے تھے۔ زین نے محنت سے ہر پیچ کو جوڑا اور آخرکار گھڑی چلنے لگی۔

“بہت اچھا! تم نے پہلا امتحان پاس کر لیا۔” بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اب زین نے چاندی کی چابی پکڑی۔ اس بار وہ ایک غار کے اندر تھا جہاں ایک بڑا سا اژدہا سو رہا تھا۔ غار کے آخر میں ایک قیمتی ہیرا رکھا تھا۔ زین کو ہیرا لے کر واپس آنا تھا، لیکن اژدہا جاگ جاتا تو اسے کھا جاتا۔

زین نے اپنے دماغ سے کام لیا۔ اس نے غار کے پاس پڑے ہوئے پتھروں سے ایک لمبی سی چھڑی بنائی اور ہیرے کو کھسکا لیا۔ جیسے ہی ہیرا ہٹا، اژدہا کررا کر جاگ اٹھا، لیکن زین پہلے ہی بھاگ چکا تھا۔

اب کانسی کی چابی بچی تھی۔ جب زین نے اسے ہاتھ میں لیا تو وہ ایک عجیب سے شیشے کے کمرے میں پہنچ گیا۔ شیشے کی دیوار پر لکھا تھا:

“تمہارا سب سے بڑا خوف کیا ہے؟”

زین کے سامنے اچانک اس کا سب سے بڑا ڈر نمودار ہوا—وہ ایک اندھیرے کنویں میں گر رہا تھا۔ لیکن پھر اسے یاد آیا کہ یہ سب ایک امتحان ہے۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور زور سے کہا:

“مجھے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا!”

شیشہ ٹوٹ گیا اور زین اصلی دنیا میں واپس آ گیا۔ اب وہ تہ خانے میں کھڑا تھا جہاں تینوں چابیاں میز پر چمک رہی تھیں۔ اچانک دیوار کھلی اور ایک خزانے کا صندوق نمودار ہوا۔

زین نے صندوق کو کھولا تو اندر ایک پرانی کتاب تھی جس پر لکھا تھا:

“تم نے ہمت اور عقل سے کام لیا۔ یہ خزانہ اب تمہارا ہے۔”

زین نے کتاب کھولی تو دیکھا کہ اس میں دنیا بھر کے راز درج تھے۔ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔ اب وہ جانتا تھا کہ حقیقی خزانہ علم ہے، اور جو اسے تلاش کر لے، وہ کبھی نہیں ہارتا۔

اس دن کے بعد رائے بازار کے بچوں نے کبھی کسی عجیب گھر کے ڈر کی کہانی نہیں سنائی، کیونکہ زین نے سب کو بتا دیا تھا کہ ڈر صرف ایک امتحان ہوتا ہے، اور ہمت سے کام لینے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *