پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک دس سالہ بچہ رہتا تھا جس کا نام عرفان تھا۔ وہ ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوا تھا۔ اس کا گھر کچے اینٹوں کا بنا ہوا تھا اور چھت کھجور کے پتوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ رات کو جب وہ اپنی چارپائی پر لیٹتا تو کھلی ہوئی کھڑکی سے چاند نظر آتا۔ چاند کی چاندنی اس کے کمرے میں پھیل جاتی اور عرفان اسے گھنٹوں دیکھتا رہتا

ایک دن اس کے استاد نے کلاس میں سوال کیا: “بچو، تم بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہو؟”

سب بچوں نے جواب دیا:
“میں ڈاکٹر بنوں گا!”
“میں انجینئر بنوں گی!”
“میں فوج میں جاؤں گا!”

لیکن جب عرفان کی باری آئی تو اس نے کہا: “میں چاند پر جانا چاہتا ہوں!”

کلاس کے تمام بچے ہنس پڑے۔ ایک لڑکے نے طنز سے کہا: “عرفان، تم پاگل ہو کیا؟ ہم غریب گاؤں کے بچے ہیں، ہماری تو زمین پر زندگی گزارنا بھی مشکل ہے، چاند پر جانا تو دور کی بات ہے!”

لیکن عرفان کے دل میں یہ خواب گہرا بیٹھ چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ خواب چاہے جتنے بڑے ہوں، اگر انسان میں انہیں پورا کرنے کا جذبہ ہو تو وہ ضرور پورے ہوتے ہیں۔

مشکلات اور حوصلہ

عرفان کے گھر کی حالت اچھی نہیں تھی۔ اس کے والد دن رات محنت کرتے تھے لیکن بمشکل ہی گھر کا خرچ چل پاتا۔عرفان کو نہ تو اچھی کتابیں میسر تھیں اور نہ ہی کوئی ایسا شخص جو اس کے خواب کو سمجھ سکےلیکن عرفان نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے پرانی کتابوں کے ڈھیر سے سائنس کی کچھ کتابیں ڈھونڈ نکالیں۔ وہ روزانہ اسکول کے بعد گاؤں کے کنویں کے پاس بیٹھ کر ان کتابوں کو پڑھتا۔ اسے ستاروں، خلاء اور راکٹس کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔

ایک دن گاؤں کے ایک بزرگ نے اسے یہ کتابیں پڑھتے دیکھ لیا۔ وہ پہلے تو حیران ہوئے، پھر مسکرا کر بولے: “بیٹا، تمہیں تو واقعی خلاء میں دلچسپی ہے۔ کیا تم جانتے ہو کہ پاکستان کا اپنا خلائی پروگرام بھی ہے؟”

عرفان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ “جی ہاں! میں نے سنا ہے کہ ہمارے ملک نے بھی راکٹ چلائے ہیں!”

بزرگ نے کہا: “اگر تم سچ مچ چاند پر جانا چاہتے ہو تو تمہیں بہت محنت کرنی ہوگی۔ پہلے اچھے اسکول میں پڑھو، پھر انجینئرنگ یا خلائی سائنس پڑھو۔”

عرفان نے سوچا کہ یہ سب کرنا آسان نہیں ہوگا، لیکن وہ ہار ماننے والا نہیں تھا۔

موقع اور محنت

ایک دن گاؤں میں خبر پھیلی کہ ایک بڑا سائنس دان شہر سے آیا ہے جو خلائی تحقیق کرتا ہے۔ عرفان نے اسے تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ پیدل ہی کئی کلومیٹر چل کر شہر پہنچا اور آخرکار اس سائنس دان سے ملنے میں کامیاب ہو گیا۔

سائنس دان نے جب عرفان کا خلاء کے بارے میں جوش دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوا۔ اس نے عرفان کو کچھ کتابیں دیں اور کہا: “اگر تم سچ مچ یہ سب کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہیں شہر کے اچھے اسکول میں پڑھنا ہوگا۔”

عرفان کے والد نے جب یہ سنا تو وہ پریشان ہو گئے۔ “بیٹا، ہمارے پاس تمہیں شہر بھیجنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔”

لیکن عرفان نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے ایک مقامی اخبار میں ایک وظیفے کا اشتہار دیکھا جو غریب مگر ہونہار بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے تھا۔ اس نے امتحان دیا اور کامیاب ہو گیا!

خواب کی طرف پہلا قدم

شہر کے اچھے اسکول میں عرفان نے سخت محنت کی۔ وہ ہمیشہ کلاس میں اول آتا۔ اس کے اساتذہ اس کی لگن سے بہت متاثر تھے۔ جب وہ بارہویں جماعت میں پہنچا تو اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خلائی سائنس میں تعلیم حاصل کرے گا۔

اس نے ایک بڑے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں اس کی ملاقات ایسے طلباء سے ہوئی جو اس کی طرح خلاء کے خواب دیکھتے تھے۔ انہوں نے مل کر ایک چھوٹا سا راکٹ بنایا جو کامیابی سے فضا میں گیا۔ یہ عرفان کی پہلی کامیابی تھی!

چاند کی طرف سفر

سالوں کی محنت کے بعد، عرفان کو پاکستان کے خلائی ادارے SUPARCO میں ملازمت مل گئی۔ وہاں اس نے بڑے بڑے راکٹس اور سیٹلائٹس پر کام کیا۔

پھر ایک تاریخی دن آیا جب پاکستان نے اپنا پہلا خلاباز بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ عرفان نے اس موقع کے لیے سخت تربیت حاصل کی۔ آخرکار، اسے چاند پر جانے والے پہلے پاکستانی خلاباز کے طور پر منتخب کر لیا گیا!

جس دن راکٹ چاند کی طرف روانہ ہوا، پورا ملک اسے دیکھ رہا تھا۔ عرفان کی ماں آنسو بہا رہی تھی، لیکن وہ خوشی کے آنسو تھے۔ جب راکٹ چاند پر اترا تو عرفان نے چاند کی سطح پر قدم رکھتے ہوئے کہا:

“یہ صرف میری کامیابی نہیں، یہ ہر اس بچے کی کامیابی ہے جو خواب دیکھتا ہے اور اس کے لیے محنت کرتا ہے!”

عرفان کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ “کوئی خواب چھوٹا نہیں ہوتا، بس خواب دیکھنے والے کا عزم چھوٹا ہو سکتا ہے۔” اگر ہم اپنے مقصد کے لیے محنت کریں، مشکلات سے نہ گھبرائیں اور کبھی ہمت نہ ہاریں تو ہم ضرور کامیاب ہو سکتے ہیں۔

تو تمہارا خواب کیا ہے؟ کیا تم بھی عرفان کی طرح اپنے خواب کو پورا کرنے کے لیے تیار ہو؟

1 thought on ““چاند تک کا سفر”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *