ایک زمانے کی بات ہے، جب دور دراز کے ایک خطے پر ایک عادل اور طاقتور بادشاہ کی حکومت تھی۔ اس بادشاہ کا نام سلطان رحمان تھا، جس کی شہرت نہ صرف ایک بہادر حکمران کے طور پر دور دور تک پھیلی ہوئی تھی، بلکہ وہ علم و حکمت کا بھی ایک سچا سرپرست تھا۔ اس کے وسیع و عریض دربار میں ہر وقت بڑے بڑے عالم، فاضل، شاعر اور دانشور حاضر رہتے تھے، جو اپنی اپنی فہم و فراست سے محفل کو رونق بخشتے تھے۔ لیکن ان تمام صاحبان علم میں ایک شخص ایسا تھا، جو اپنی غیر معمولی ذہانت اور مستقبل کی پیش بینی کی صلاحیت کی بدولت بادشاہ کا سب سے معتمد اور قریبی مشیر بن چکا تھا۔ یہ شخص کوئی اور نہیں، بلکہ سلطنت کا وزیراعظم، فضل الرحمان تھا۔

فضل الرحمان کی ذہانت کے قصے زبان زد عام تھے اور لوگ اس کی حاضر جوابی اور مسائل کو جڑ سے حل کرنے کی صلاحیت پر حیران تھے۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی رائے کو نہ صرف بادشاہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، بلکہ سلطنت کے اہم ترین معاملات میں بھی اس کی دانش مندی پر بھروسہ کیا جاتا تھا۔ اس کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی کشش تھی، جو علم اور تجربے کے امتزاج سے پیدا ہوتی تھی۔ اس کی گفتگو میں ٹھہراؤ اور استدلال کی گہرائی ہوتی تھی، جس کی وجہ سے ہر کوئی اس کی بات غور سے سنتا تھا۔

وزیر کی ذہانت کی پہچان: ایک شاہی استفسار

ایک دن، جب بادشاہ سلطان رحمان اپنے خاص دربار میں بیٹھے ہوئے تھے اور سلطنت کے مختلف امور پر غور و فکر کر رہے تھے، تو ان کی نظر اپنے وزیراعظم فضل الرحمان پر پڑی، جو حسب معمول ادب سے ایک طرف کھڑے تھے۔ بادشاہ نے اپنے وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے ایک سوال پوچھا، جس میں ان کے دل میں موجود ایک تجسس جھلک رہا تھا:

“فضل الرحمان، تمہاری ذہانت کی وجہ سے تمہیں ہر کوئی سراہتا ہے۔ عام و خاص سبھی تمہاری عقل و فراست کے گن گاتے ہیں۔ کیا تم واقعی اتنے ہی ذہین ہو جتنا لوگ کہتے ہیں؟ کیا یہ محض ایک شہرت ہے یا حقیقت میں تمہاری عقل اس قدر بلند ہے؟ میں نے لوگوں کو تمہاری مشکل کشائی اور فوری فیصلوں کی تعریف کرتے سنا ہے، لیکن میں خود اس کا براہ راست تجربہ کرنا چاہتا ہوں۔”

وزیر اعظم فضل الرحمان نے بادشاہ کے ان الفاظ کو نہایت تحمل اور احترام سے سنا۔ ان کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی، جو ان کی گہری سوچ اور اعتماد کو ظاہر کر رہی تھی۔ انہوں نے نہایت ادب سے جواب دیا:

“میرے عالی مرتبت سلطان، یہ آپ کی بندہ پروری اور رعایا کی محبت ہے کہ وہ مجھے اس قدر سراہتے ہیں۔ میں خود کو اتنا بڑا دانشور نہیں سمجھتا، لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ ذہانت کا اصل امتحان آسان حالات میں نہیں، بلکہ مشکل اور پیچیدہ صورتحال میں ہوتا ہے۔ جب مسائل گھیرے میں لے لیتے ہیں اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا، تب عقل و دانش ہی رہنمائی کرتی ہے۔ اگر آپ چاہیں تو مجھے کسی بھی قسم کی آزمائش میں ڈال سکتے ہیں، تاکہ آپ خود میری فہم و فراست کا اندازہ لگا سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی رہنمائی اور اللہ کی مدد سے میں ہر امتحان میں پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔”

بادشاہ سلطان رحمان کو اپنے وزیر کا یہ جواب بہت پسند آیا۔ انہیں اس کی خود اعتمادی اور چیلنج کو قبول کرنے کی آمادگی نے متاثر کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ واقعی اپنے وزیر کی عقل و دانش کا امتحان لیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ اپنی شہرت کے مطابق ثابت قدم رہتے ہیں یا نہیں۔

بادشاہ کی پہلی آزمائش: ایک معمے کا چیلنج

بادشاہ نے ایک دن اپنی سلطنت میں ایک عام اعلان کروایا کہ وہ تمام دانشوروں، عالموں اور صاحبان عقل کے سامنے ایک پیچیدہ معمہ پیش کریں گے۔ جس کسی نے بھی اس معمے کا درست اور تسلی بخش جواب دیا، اسے شاہی خزانے سے ایک گرانقدر انعام دیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد سلطنت کے دور دراز علاقوں سے بھی علم کے پیاسے اور اپنی ذہانت پر ناز کرنے والے افراد دربار میں جمع ہونے لگے۔

جب سب جمع ہو گئے، تو بادشاہ نے اپنا معمہ پیش کیا، جو بظاہر سادہ لیکن گہرائی میں بہت پیچیدہ تھا:

“وہ کون سی چیز ہے جو صبح کے وقت آہستہ آہستہ چلتی ہے، جیسے جیسے دن چڑھتا ہے اس کی رفتار تیز ہوتی جاتی ہے، دوپہر کو وہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ حرکت کرتی ہے، پھر جب شام ڈھلنے لگتی ہے تو وہ تھک جاتی ہے اور اس کی رفتار سست پڑ جاتی ہے، اور آخر کار جب رات آتی ہے تو وہ مکمل طور پر سو جاتی ہے؟”

یہ معمہ سن کر دربار میں خاموشی چھا گئی۔ بڑے بڑے علماء اور دانشور اپنی اپنی فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کرنے لگے، لیکن کوئی بھی ایسا جواب نہ دے سکا جو بادشاہ کو مطمئن کر سکے۔ کسی نے کہا کہ یہ سورج کی حرکت ہے، لیکن سورج تو رات کو غائب ہو جاتا ہے سوتا نہیں۔ کسی نے دریا کا بہاؤ بتایا، لیکن دریا تو رات دن بہتا رہتا ہے۔ اس طرح مختلف لوگوں نے مختلف قیاس آرائیاں کیں، لیکن کسی کا بھی جواب معمے کے تمام پہلوؤں پر پورا نہیں اترتا تھا۔

آخر کار، جب تمام دانشور اپنی اپنی کوششوں سے مایوس ہو چکے تھے، تو وزیراعظم فضل الرحمان آگے بڑھے اور نہایت ادب سے بادشاہ کو مخاطب کیا:

“میرے آقا، اگر اجازت ہو تو میں اس معمے کا جواب عرض کروں؟”

بادشاہ نے انہیں اجازت دی، اور فضل الرحمان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:

“میرے عالی جاہ، یہ چیز ‘انسان کی سانس’ ہے۔ غور فرمائیے کہ جب انسان صبح بیدار ہوتا ہے تو اس کی سانسیں ہلکی اور آہستہ ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے وہ اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں میں مصروف ہوتا ہے، دوپہر کے وقت اس کی سانسیں تیز اور گہری ہو جاتی ہیں۔ پھر جب شام ڈھلنے لگتی ہے اور جسم تھک جاتا ہے، تو سانسوں کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے۔ اور آخر کار جب انسان رات کو سو جاتا ہے، تو اس کی سانسیں بہت گہری اور پرسکون ہو جاتی ہیں، گویا وہ سو گئی ہوں۔”

بادشاہ سلطان رحمان اپنے وزیر کے اس جواب کو سن کر بہت خوش ہوئے اور بے اختیار ان کی ذہانت کو سلام کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ فضل الرحمان واقعی ایک غیر معمولی فہم و فراست کے مالک ہیں۔ دربار میں موجود دیگر دانشور بھی اس جواب کی منطق اور گہرائی کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکے۔

دوسری آزمائش: ایک خالی تھیلی کو بھرنا

بادشاہ نے اپنے وزیر کی ذہانت کا ایک اور امتحان لینے کا ارادہ کیا۔ اگلے دن انہوں نے وزیر کو اپنے پاس بلایا اور اسے ایک خالی تھیلی دیتے ہوئے کہا:

“فضل الرحمان، میں تمہیں ایک اور کام سونپتا ہوں۔ یہ ایک خالی تھیلی ہے۔ تمہیں اس میں ایسی چیز بھرنی ہے جو دیکھنے میں بالکل خالی لگے، لیکن درحقیقت وہ بہت قیمتی اور انمول ہو۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تمہاری عقل اس معمے کو کیسے حل کرتی ہے۔”

وزیر نے وہ خالی تھیلی بادشاہ کے ہاتھ سے لی اور کچھ دیر کے لیے گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ دربار میں موجود دیگر لوگ بھی تجسس سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اس ناممکن کام کو کیسے انجام دیں گے۔

تھوڑی دیر بعد، فضل الرحمان نے ایک شمع منگوائی۔ جب شمع لائی گئی تو انہوں نے اسے روشن کیا اور پھر اس روشن شمع کو اس خالی تھیلی کے اندر رکھ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے بادشاہ کی طرف دیکھا اور کہا:

“میرے آقا، اس تھیلی میں اب روشنی بھر گئی ہے۔ اگرچہ یہ دیکھنے میں اب بھی خالی لگتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے اندر ایک ایسی چیز موجود ہے جس کی قیمت بے حساب ہے۔ روشنی علم کی علامت ہے، ہدایت کی نشانی ہے، اور یہ کسی بھی مادی چیز سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔”

بادشاہ سلطان رحمان اپنے وزیر کی اس حاضر جوابی اور گہری معنویت سے بھرپور جواب پر حیران رہ گئے۔ انہوں نے فضل الرحمان کی عقل و دانش کی ایک بار پھر داد دی اور محسوس کیا کہ ان کا وزیر واقعی ایک نادر روزگار شخص ہے۔

تیسری آزمائش: تین ناممکن کاموں کا چیلنج

بادشاہ نے اب اپنے وزیر کو مزید مشکل اور بظاہر ناممکن کام سونپنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فضل الرحمان کو تین ایسے کام کرنے کو کہا جو عام حالات میں ممکن نظر نہیں آتے تھے:

  1. “ایسا کھانا بناؤ جو کھانے کے بعد بھوک کو اور زیادہ بڑھا دے، کم نہ کرے۔”
  2. “ایسا پانی پیو جس سے پیاس بجھنے کی بجائے اور زیادہ لگے۔”
  3. “ایسا کام کرو جس سے تمہارا دشمن بھی خوش ہو جائے۔”

یہ تینوں کام سن کر دربار میں موجود لوگ حیران رہ گئے کہ آخر کوئی ایسا کھانا کیسے بنا سکتا ہے جو بھوک بڑھائے، یا ایسا پانی کیسے پیا جا سکتا ہے جس سے پیاس اور تیز ہو جائے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوئی ایسا کام کیسے کیا جا سکتا ہے جس سے دشمن بھی خوش ہو جائے؟

وزیر اعظم فضل الرحمان نے ان تینوں ناممکن کاموں کو نہایت سنجیدگی سے سنا اور پھر اپنی فطری ذہانت سے ان کا حل پیش کیا:

پہلے کام کے لیے: وزیر نے نمکین مرچوں سے تیار کردہ ایک خاص قسم کا کھانا پیش کیا۔ جب بادشاہ نے وہ کھانا کھایا تو اس کا ذائقہ اتنا تیز اور نمکین تھا کہ اس سے ان کی بھوک تو مٹ نہ سکی، البتہ انہیں اور زیادہ بھوک محسوس ہونے لگی۔ اس طرح وزیر نے ایسا کھانا پیش کیا جو کھانے کے بعد بھوک بڑھا دے۔

دوسرے کام کے لیے: وزیر نے بادشاہ کو نمکین چنے کھلائے اور اس کے بعد پانی پیش کیا۔ جب بادشاہ نے وہ نمکین چنے کھائے تو ان کی پیاس اور بڑھ گئی، اور جب انہوں نے پانی پیا تو انہیں اس کی قدر و قیمت اور زیادہ محسوس ہوئی۔ اس طرح وزیر نے ایسا پانی پلوایا جس سے پیاس بجھنے کی بجائے اور زیادہ محسوس ہوئی۔

تیسرے کام کے لیے: اس کام کے لیے وزیر نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ایک دیرینہ اور طاقتور دشمن کو معاف کر دے۔ جب بادشاہ نے اپنے وزیر کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنے دشمن کو معاف کر دیا اور اس کے ساتھ صلح کر لی، تو وہ دشمن اس غیر متوقع رحم دلی اور فراخ دلی پر بہت خوش ہوا۔ اس طرح وزیر نے ایک ایسا کام کیا جس سے بادشاہ کا دشمن بھی خوش ہو گیا۔

بادشاہ سلطان رحمان اپنے وزیر کی اس غیر معمولی ذہانت اور مسائل کو حل کرنے کی انوکھی صلاحیت پر بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ فضل الرحمان کی عقل واقعی کسی عام انسان کی فہم سے کہیں بالاتر ہے۔

چوتھی آزمائش: ایک جھوٹے خواب کا امتحان

یک دن بادشاہ سلطان رحمان نے اپنے وزیر فضل الرحمان کو ایک اور مشکل صورتحال میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے وزیر کو اپنے پاس بلایا اور ایک افسردہ لہجے میں کہا:

“فضل الرحمان، کل رات میں نے ایک بہت ہی پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ تم نے میرے خلاف بغاوت کر دی ہے اور میری سلطنت پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ اس خواب نے مجھے بہت مضطرب کر دیا ہے۔ میں تمہیں اس جرم کی سزا ضرور دوں گا، لیکن اگر تم اپنی معصومیت کو ثابت کر سکو تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔”

بادشاہ کے ان الفاظ کو سن کر وزیر فضل الرحمان ذرا بھی نہیں گھبرائے۔ انہوں نے فوراً نہایت اطمینان سے جواب دیا:

“میرے عالی مرتبت سلطان، اگر آپ خواب کی بنیاد پر کسی کو سزا دے سکتے ہیں، تو کیا مجھے بھی اجازت ہے کہ میں اپنا ایک خواب آپ کو سناؤں؟ کل رات میں نے بھی ایک خواب دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے مرحوم والد محترم تشریف لائے اور انہوں نے مجھے اپنی سلطنت کا ولی عہد مقرر کر دیا ہے۔”

وزیر کا یہ جواب سن کر بادشاہ سلطان رحمان بے اختیار ہنس پڑے۔ انہیں فضل الرحمان کی حاضر جوابی اور صورتحال کو اپنی عقل سے پلٹ دینے کی صلاحیت پر بہت تعجب ہوا۔ انہوں نے کہا:

“تم سچ کہتے ہو فضل الرحمان، خواب تو محض خیالات کا ایک سلسلہ ہوتے ہیں اور ان پر حقیقت کی بنیاد پر کوئی عمل نہیں ہونا چاہیے۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں اور تمہاری وفاداری پر مجھے کوئی شک نہیں ہے۔”

اس واقعے سے بادشاہ کو یہ سبق ملا کہ جلد بازی میں کسی نتیجے پر پہنچنا درست نہیں ہے اور عقل و دانش سے کام لینا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔

پانچویں آزمائش: وزیر کی وفاداری کا امتحان

کچھ عرصے بعد، بادشاہ سلطان رحمان کے دل میں ایک بار پھر اپنے وزیر فضل الرحمان کی وفاداری کے بارے میں ایک خفیف سا شک پیدا ہوا۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا واقعی ان کا وزیر ہر حال میں ان کا وفادار رہے گا یا کسی لالچ یا خوف کی وجہ سے وہ ان سے غداری کر سکتا ہے۔

اس مقصد کے لیے بادشاہ نے ایک چال چلی۔ انہوں نے اپنے ایک خاص اور معتمد خادم کو بلا کر حکم دیا کہ وہ خفیہ طور پر وزیر فضل الرحمان کے پاس جائے اور اسے یہ پیغام دے:

“اے وزیراعظم، میں تمہیں ایک اہم راز بتانے آیا ہوں۔ بادشاہ سلطان رحمان تمہیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مجھے اس سازش کا علم ہو گیا ہے اور میں تمہیں بچا سکتا ہوں، لیکن اس کے بدلے میں تمہیں میری بات ماننی ہوگی اور میرے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ اگر تم میری پیشکش قبول کرتے ہو تو میں تمہیں اس خطرے سے محفوظ رکھوں گا۔”

بادشاہ کے حکم کے مطابق، خادم نے وزیر فضل الرحمان کے پاس جا کر بالکل وہی پیغام پہنچایا۔ لیکن وزیر فضل الرحمان ایک دانا اور تجربہ کار شخص تھے۔ انہوں نے اس خادم کی باتوں میں آنے کی بجائے فوراً اس معاملے کی اطلاع خود بادشاہ سلطان رحمان کو دی۔

جب بادشاہ نے یہ سنا تو وہ حیران رہ گئے اور انہوں نے وزیر سے پوچھا:

“فضل الرحمان، تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ سب میری طرف سے تمہاری وفاداری کا امتحان تھا؟ تم نے اس خادم کی باتوں پر یقین کیوں نہیں کیا؟”

وزیر فضل الرحمان نے نہایت دانشمندی سے جواب دیا:

“میرے آقا، میں نے تھوڑی دیر کے لیے اس خادم کی باتوں پر غور کیا۔ اگر آپ واقعی مجھے مارنا چاہتے ہوتے، تو آپ کبھی بھی اس طرح کسی اور کے ذریعے پیغام نہیں بھیجتے۔ آپ کا حکم خاموشی سے نافذ کیا جاتا اور مجھے خبر بھی نہ ہوتی۔ یہ سب ڈرامہ اور ایک سازش رچانا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ یہ آپ کی طرف سے میری وفاداری کو جانچنے کی ایک کوشش ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ایک عادل حکمران ہیں اور بغیر کسی ٹھوس وجہ کے کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔”

بادشاہ سلطان رحمان اپنے وزیر کی اس غیر معمولی فہم و فراست اور اپنی وفاداری پر کامل یقین دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے فضل الرحمان کو ان کی دانشمندی اور وفاداری کے صلے میں گرانقدر انعامات سے نوازا اور آئندہ کے لیے ان پر اپنا اعتماد اور بھی بڑھا دیا۔

آخری سبق: بادشاہ کی عقل مندی

ایک دن، جب بادشاہ سلطان رحمان اپنے وزیر فضل الرحمان کے ساتھ سلطنت کے امور پر تبادلہ خیال کر رہے تھے، تو انہوں نے اپنے وزیر سے ایک ذاتی سوال پوچھا:

“فضل الرحمان، میں نے تمہیں ہمیشہ ہر مشکل اور پیچیدہ صورتحال کو اتنی آسانی اور حکمت سے حل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کیا کوئی خاص راز ہے جو تمہیں اس قدر کامیاب بناتا ہے؟ مجھے بتاؤ کہ تمہاری کامیابی کا اصل راز کیا ہے؟”

وزیر فضل الرحمان نے نہایت عاجزی اور دانائی سے جواب دیا:

“میرے عالی مرتبت سلطان، میری کامیابی کا کوئی ایک راز نہیں، بلکہ چند اصول ہیں جن پر میں ہمیشہ کاربند رہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو میں ہمیشہ صبر سے کام لیتا ہوں۔ کسی بھی مسئلے پر فوری ردعمل دینے کی بجائے میں ٹھہر کر اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرتا ہوں۔ دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ میں اپنے غصے پر قابو رکھتا ہوں۔ غصہ اکثر غلط فیصلوں کی طرف لے جاتا ہے۔ اور تیسرا اور سب سے اہم اصول یہ ہے کہ میں ہر مسئلے کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں صرف اپنی رائے پر ہی اکتفا نہیں کرتا، بلکہ دوسروں کے نقطہ نظر کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہی وہ بنیادی باتیں ہیں جو شاید میری کامیابی کا راز ہیں۔”

بادشاہ سلطان رحمان نے اپنے وزیر کی ان قیمتی باتوں کو دل سے لگا لیا۔ اس دن سے انہوں نے بھی یہ عہد کیا کہ وہ بھی ہر معاملے میں صبر، تحمل اور عقل و دانش سے کام لیں گے اور کبھی بھی جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ایک اچھے حکمران کے لیے نہ صرف طاقت اور عدل ضروری ہے، بلکہ عقل و دانش اور دوراندیشی بھی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے۔

نتیجہ: ذہانت کی قدر و قیمت

اس دلچسپ اور سبق آموز واقعے سے ہمیں یہ اہم سبق ملتا ہے کہ حقیقی ذہانت صرف کتابی علم یا رسمی تعلیم کا نام نہیں، بلکہ یہ عملی زندگی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی فطری صلاحیت اور فہم و فراست کا جوہر ہے۔ وزیر فضل الرحمان کی عقلمندی، حاضر جوابی اور دوراندیشی نے نہ صرف انہیں بادشاہ کے دل میں ایک خاص مقام دلایا، بلکہ ان کی دانشمندانہ صلاحوں سے پوری سلطنت نے ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوئی۔

یہ واقعہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ایک اچھا حکمران وہ ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی طاقت اور اختیار پر بھروسہ کرے، بلکہ اپنے ارد گرد موجود ذہین اور قابل افراد کی قدر کرے اور ان کی صلاحوں سے فائدہ اٹھائے۔ سلطان رحمان نے اپنے وزیر کی ذہانت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کی قدر بھی کی، جس کی وجہ سے وہ ایک کامیاب اور عادل بادشاہ کے طور پر جانے گئے۔

آخر میں، یہ کہانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنی عقل و دانش کو بروئے کار لانا چاہیے، صبر اور تحمل سے کام لینا چاہیے، اور ہر مسئلے کو گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وہ اوصاف ہیں جو کسی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *